اِعرَب یا حرکت کے نشاننشان ⬅
آوازوں کو چھوٹی، بڑی، تیز اور دھیمی کرنے کے لئے مختلف طرح کے نشان ان کی علامتوں کے اوپر یا نیچے لگادیتے ہیں جن سے ایک آواز طرح طرح سے سنائی دیتاہے۔
حرکت کے نشانات
اوپر اس نشان کا نام زبر ہے۔~
پچاس نشان کا نام زی ہے۔~
او پ ہوتا ہے۔ اس کا نام ہے۔~
اس نشان کو پین“ کہتے ہے۔~
لفظ⬅
ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ ایک سے زیادہ حرف جب آپس میں ملتے ہیں تو لفظ جناہے۔یے :
ب حرف ہے
ک حرف ہے
ی حرف ہے
اگر ان کو جوڑا جائے تو ب +ک + ر+ ی = بکری بنتا ہے جو ایک جانور کا نام ہے۔
اسی طرح ک + ت + ا +ب= کتاب بنآے جو پڑھنے کے کام آتی ہے اسی طرح قلم ، میز، پانی، چاندی، سورج وغیرہ لفظ ہیں جومعنی رکھتے ہیں-
لیکن قلم کی جگہ ولم کہیں ، کتاب کی جگہ وتاب کہیں یا پانی کی جگہ وانی ہیں تو ولم ، وتاب یا وانی کے کوئی معنی نہیں نکلتے ۔
لہذا معنی رکھنے والے لفظ کو ”موضوع“ کہتے ہیں اور بے معنی لفظ کو ”مہمل“ کہتے ہیں۔
کبھی کبھی دو لفظ مل کر ایک معنی دیتے ہیں ایسے الفاظ و ”مرکب“ الفاظ کہتے ہیں اور ا کیلے معنی دینے والے الفاظ کو ”مفرد“ الفاظ کہتے ہیں۔ جیسے :
تَلَفُّظ⬅
ایک لفظ میں جو ہرف ہوتے ہیں وہ الگ الگ آوازوں کے نشان ہوتے ہیں۔ ان ہرفوں کو ان کی صہیی آواز اور حرکت کے ساتھ پڑھنے کا نام تلفظ ہے۔
اِملا⬅
کسی دوسرے کی بات یا اپنی بات کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی یاد کے سہارے ہم جو لفظ لکھتے ہیی اسے املا کہتے یں اگر لفظ صہیی حرف ک ساتھ لکھا گیا تو املا صہیی ہے ورنہ غلط۔
جملہ⬅
١- ماں باپ کا درجہ بہت بڑا ہے۔
۲- استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر ہے۔
٣- وہ تم کو تعلیم دیتے ہیں۔
یہ سب لفظ ایک ساتھ ملتے ہیں تو ایک پوری بات بنتی ہے۔ اسی پوری بات و جملہ کہا جاتا ہے۔ یعنی جب کئی معنی والے لفظ مناسب طریقے سے آپس میں ملتے ہیں تو ایک جملہ بنتا ہے جس سے ایک پری بات سمجھ میں آتی ہے ۔
جملے میں معنی والے لفظوں کی ایک خاص ترتیب اور اصول ہوتا ہے ایسے معنی والے جملوں کی دو قسم ہوتی ہے۔
١- ماں باپ کا درجہ بہت بڑا ہے۔
۲- آسمان نیلا ہے۔
۳- میں پانی پیتا ہوں۔
اوپر کے ”ا“ اور ”٢" کی مثال میں صرف ماں باپ کےدرجے کے بارے میں اور آسمان کے رنگ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے نہ ماں باپ کوئی کام کرتے ہیں نہ آسمان ۔
یعنی جس جملے سے کام کا ہونا نہیں ظاہر ہواسے خبر کہتے ہیں اور ایسے جملے کو ”جملہ خبریہ“ کہاجاتاہے۔
تیرے جملے میں ”پیتا ہوں“ ایک کام ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ پانی پینے کا کام ہورہا ہے جیسے :اہمد کتاب پڑھر ہے۔ یہاں پڑھنے کا کام معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا جس جملے سے کسی کام کے ہونے کا پتہ چلے اسے ”جملہ فعلی‘‘ کہا جاتا ہے۔
جملے کے ہصّے
١- عورت ، مرد ، جانور، شہر ، دریا ، ملک
۲- زرینہ ، اہمد ، کلکتہ ، گنگا ، ہندوستان
٣- مین ، ہم ، تم، تم لوگ ، وہ لوگ ، یہ ، اَس ، اُس
٤- میرا ، میری ، ہمارا ، ہماری ، تمہارا ، تمہاری ، اس کا ، اس کی، ان کا ، ان کی
نمبر ا۔ میں کسی بھی عورت کو عورت، کسی بھی مرد کو مرد، کسی بھی جانور کو جانور، اور کسی بھی شہر کو شہر، کے نام سے پکارتے ہیں۔ یعنی جن لفظوں سے نام ظاہر ہو اسے اسم کہتے ہیں۔
نمبر ۲- میں زرینہ ایک خاص عورت ہے، احمد ایک خاص مرد ہے، گنگا ایک خاص دریا ہے، کلکتہ ایک خاص شہری اور ہندوستان ایک خاص ملک ہے۔
لہذا الفاظ جن سے عام مرد عورت کی عام چیز یا کسی عام جگہ کا نام معلوم ہو انہیں اسم نکرہ یعنی اسم عام کہتے ہیں۔
اور ایسا لفظ جس سے کی خاص آدمی، خاص چیز اور خاص جگہ کا نام معلوم ہو اسم معرفہ یا اسم خاص کہتے ہیں۔ اسم کی ان قسموں کو نقشے کے ذر یہ اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
نمبر ۳ اور ٤ میں دیے گئے لفظوں کو ضمیر کہتے ہیں ۔ یہ لفظ بار بار کسی اسم کو نہیں استعمال کر کے اس کی جگہ پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
اب ہم جملے کواس طرح پہچا نیں گے۔
اردو کے جملوں میں معنی والے لفظوں کی ترتیب فاعل ، مفعول اور فعل (١+٢+٣) کے حساب سے ہوتی ہے۔
کسی بھی اردو جملے میں فاعل ، مفعول اور فعل کو ہم نیچے ہوۓ طریقے سے معلوم کر سکتے ہیں۔
فاعل معلوم کرنے کے لئے ”کون“ سے سوال کرتے ہیں اور جو جواب ملے وہ فاعل ہوتا ہے۔
جیسے اوپر والے جملے میں فاعل معلوم کرنے کے لئے ہم سوال کریں۔
سوال : کون پڑھتا ہے؟
جواب : احمد------ لہٰزا احم فاعل ہوا۔
مفعول معلم کرنے کے لۓ ”کیا‘‘ سے سوال کریں گے۔
سوال : احمد کیا پڑھتا ہے؟
جواب : کتاب ------ لہٰذا کتاب کتاب مغعول ہے۔
فعل معلوم کرنے کے لئے ”کیا کرتا ہے“ سے سوال کریں گے۔
سوال : احمد کیا کرتا ہے؟
جواب : پڑھتا ہے -------- لہذا پڑھتا ہے فعل ہے۔
ایک جملے کی بناوٹ میں جہاں فاعل، مفعول اوفعل کی ضرورت ہوتی ہے وہیں کچھ ضروری الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں جو جملے میں خاص جگہوں پر آتے ہیں۔
جیسے: احمد نے محمود کو مارا۔
اس جملے میں احمد فاعل ہے اور اس کے بعد ”نے“ کا لفظ ہے پھر محمود مفعول ہے اور اس کے بعد ”کو“ کا لفظ ہے اور ”مارا“ فعل ہے۔
کہا۔
احمد نےمحمور سے کہا۔
اس جملے میں مفعول محمود کے بعد ”سے“ کا لفظ آیا ہے۔
احمد شہر تک گھوڑے پر گیا۔
یہاں مفعول شہر بھی ہے اور ”گھوڑے“ بھی ہے ۔ ایک مفعول کے بعد ”تک“ اور روسرے مفعول کے بعد ”پر‘‘ کے لفظ آۓ میں ۔
اوپر کے تینوں جملوں میں فاعل کے بعد ”نے“ اور مفعول کے بعد ”کو، سے، پر، تک“ کے الفاظ آئے ہیں اور ہر جملے میں یہ اسی خاص جگہ پر آتے ہیں یعنی
ان کو فاعل کی اور مفعول کی پہچان بھی کہہ سکتے ہیں۔
جملے میں ان جگہ ہم چارٹ کے ذریعہ ظاہر کر سکتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے میں کہ جہاں ”نے“ ہوگا اس سے پہلے فاعل ضرور ہوگا اور جہاں ”کو، سے، پر ، تک“ ہوں گے اس سے پہلے مفعول ضرور
ہوں گے۔
خاصں طور سے ”نے“ کو ”علامتِ فاعل“ یا فاعل کی پہچان کہتے ہیں اور ”کو“ کو ”علامتِ مفعول“ یا مفعول کی پہچان کہتے ہیں ۔ اور ” سے، پر، تک، میں“ حرفِ جار“ کہتے ہیں جو کئی طرح سے مفعول کے بعد ہی استعمال ہوتے ہیں اور جملے کی بناوٹ میں مدد کرتے ہیں۔
Comments
Post a Comment